Wednesday, April 24, 2024

آپ کے سوالات کے جوابات (قسط: 3)

 آپ کے سوالات کے جوابات (قسط: 3)
جواب از شیخ مقبول احمد سلفی
جدہ دعوہ سنٹر ، جی السلامہ ۔ سعودی عرب

سوال (1): اگر ایک عورت کا شوہر ، جو بیرون ملک مقیم ہے جبکہ شوہر کے حکم پر عورت اپنے والدین کے گھر ہے ، خاموشی سے بیوی کو مطلع کیے بغیر بیرونِ ملک سے گھر واپس آئے اور یو نین کو نسل جہاں نکاح نامہ رجسٹر کروایا گیا تھا، میں اپنے گواہان کے ساتھ جا کر تحریری طلاق نامہ اول لکھوا کر آجائے اور پھر بھی بیوی یا اس کے گھر والوں کو مطلع نہ کرے حتی کہ پیشی کی آخری تاریخ سے ایک دن پہلے یو نین کو نسل کا آفیسر خود رابطہ کرے کہ اگر حاضر نہ ہوئے تو یک طرفہ قانونی کارروائی کی جائے گی اور اس کے ذریعہ طلاق نامہ کی تصاویر موصول ہونے پر علم ہو کہ طلاق اول دی گئی ہے تو ایسی صورت میں :
1۔ بیوی کے لیے عدت کا کیا حکم ہے؟
2۔ اس صورت حال میں عدت گزار نے کا طریقہ کیا ہو گا ؟
3۔ مزید برآں اس سلسلے میں شریعت کے مطابق بیوی اور اس کے گھر والوں کا کیا کر دار ہونا چاہیے ؟
جواب : شوہر کے طلاق دینے سے طلاق واقع ہو جاتی ہے لہذا اس مسئلہ میں بھی ایک طلاق رجعی واقع ہو چکی ہے اور طلاق واقع ہونے کے بعد تین حیض عدت گزارنی پڑے گی ۔ جہاں تک گھر والوں کا معاملہ ہے تو انہیں چاہیے کہ لڑکا اور اس کے گھر والوں سے بات کریں تا کہ اگر مصالحت کی گنجائش ہو تو عدت کے دوران لڑ کار جوع کر سکے اور میاں بیوی کا رشتہ پھر سے بحال ہو جائے۔
سوال(2): والد نے اپنا گھر بیچ کر پیسہ اپنے تین بیٹوں میں تقسیم کر دیا اور ان کی ایک بیٹی بھی تھی لیکن بیٹی نے انکار کر دیا کہ مجھے ضرورت نہیں میرے بھائیوں میں یہ تقسیم کر دیا جائے۔ والد صاحب پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا میں نے یہ صحیح کیا، میں ایسا کرنے سے گناہ گار تو نہیں ہوا؟
جواب: باپ کو چاہیے تھا کہ جس طرح سے بیٹوں کو حصہ دیا ہے اسی طرح سے بیٹی کو بھی اس کا حصہ دیتا اور بیٹی نے جو یہ کہا کہ میرا حصہ بیٹوں کو دے دیا جائے تو دراصل یہ مجبوری کی وجہ سے اس نے ایسا کہا ہے۔ کیا کبھی آپ نے ایسا سنا ہے کہ کسی بیٹے نے کہا ہو کہ میر احصہ دوسرے بھائیوں کو دے دیا جائے کبھی ایسا آپ نے نہیں نا ہو گا تو بٹی جو ایسا کہتی ہے وہ مجبوری میں ایسا کہتی ہے جبکہ باپ کو
چاہیے کہ جائیداد کی تقسیم میں اولاد کے درمیان عدل سے کام لے اور بیٹے کی طرح بیٹی کو بھی حصہ دیتا۔
سوال(3): جب نوافل میں قرآن پڑھتے ہیں تو کیا ہر رکعت میں سورہ الفاتحہ کے بعد بسم اللہ بھی پڑھنا چاہئیے ؟
جواب: جب آپ سورہ فاتحہ کے بعد کوئی سورت تلاوت کرتے ہیں تو اس کی دو صورتیں ہیں یا تو آپ کوئی سورت ابتدا سے تلاوت کریں گے ایسی صورت میں بسم اللہ پڑھیں گے کیونکہ ہر سورت کے شروع میں بسم اللہ پڑھنا ہوتا ہے اور دوسری صورت یہ ہے کہ
آپ در میان سورہ سے تلاوت کریں گے تو جب در میان سورت سے تلاوت کریں گے وہاں پر بسم اللہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔
سوال (4): میرے شوہر نے ابر کمپنی سے گاڑی لیا ہے، روزانہ 800 جمع کرنا ہے اور چار سال بعد گاڑی میرے شوہر کے نام ہو جائے گی ، اور ٹرپ بھی وہی دیتے ہیں جس پر چالیس فیصد کٹ کرتے ہیں اور ساٹھ فیصد میں سی این جی اور گاڑی کی مصروفات شامل ہے تو کیا اس پر زکوۃ ہو گی؟
جواب: اس مسئلہ میں پہلی بات یہ ہے کہ قسطوں پر گاڑی خریدنے پر کمپنی زیادہ پیسہ لیتی ہے کیونکہ پیسہ جمع کرنے کے لئے مہلت دی جاتی ہے لیکن مہلت کے بدلے میں زیادہ پیسہ لینا سود میں داخل ہے اس لئے قسطوں پر کوئی سامان نہیں خریدنا چاہئے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس میں زکوۃ کی کوئی صورت نہیں بنتی ہے کیونکہ گاڑی پر کوئی زکوۃ ہی نہیں ہے اور رہا پیسے کا معاملہ تو پیسے پر اس وقت زکوۃ ہے جب پیسہ نصاب کو پہنچ جائے اور اس پیسے پر ایک سال گزر جائے تب زکوۃ دینی پڑتی ہے۔
سوال (5) شیخ عمران حسین نام کے عالم دین ہیں جو انگلش میں بیان دیتے ہیں ، کیا ان کا بیان سن سکتے ہیں؟
جواب : یہ کوئی سلفی عالم دین نہیں لگتے ہیں، تحقیق کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بریلوی ہوں گے کیونکہ یہ ایک مصنف بھی ہیں اور اپنی تصنیفات میں اپنے ایک بریلوی استاد ڈاکٹر فضل الرحمن انصاری قادری کا بکثرت ذکر کرتے ہیں جو جامعہ علیمیہ اسلامیہ کراچی کےبانی تھے ۔ اور جو سلسلہ قادریہ غوشیہ سے بیعت تھے۔ اس لیے ان کا بیان نہ سنا جائے ، آپ کسی سلفی عالم دین کا بیان سنیں۔
 سوال (6): تقدیر کے خیر و شر پر ایمان لانا ایمان کا ایک جزء ہے اگر کوئی تقدیر کو قبول نہ کر سکے کہ ایسا کیوں ہوا تو اس کو کس طرح سمجھانا چاہیے تا کہ وہ تقدیر کو قبول کر لے ؟
جواب : اس سلسلے میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ہمارا کام دین کی تبلیغ کرنا ہے اور ہدایت دینا اللہ کا کام ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ تقدیر کا معاملہ یہ ہے کہ اللہ رب العالمین پہلے سے بندوں کے اعمال کو جانتا ہے اس کو اللہ نے پہلے سے لکھ رکھا ہے اس لیے اس میں تشویش کرنے کی اور پریشان ہونے کی کوئی بات ہی نہیں ہے جبکہ انسان جو کچھ بھی کرتا ہے اپنی مرضی اور اپنے اختیار سے کرتا ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ تقدیر کے سلسلے میں بہت ساری کتابیں آتی ہیں بعض کتابوں میں اس طرح کے شبہات کا جواب بھی موجود ہوتا ہے ایسی کتاب بھی ایسے لوگوں کو پڑھنے کے لیے دیں تاکہ ان کو اطمینان ہو ۔
سوال (7): میری بیٹی اپنے بالوں میں کالا خضاب لگاتی تھی کیونکہ اس کو معلوم نہیں تھا کہ یہ ممنوع ہے اور میں بھی اس کو بتانا بھول گئی ۔اس وقت اس کے بال کالے ہیں تو کیا اس کو بدلنا پڑے گا یا یہ ٹھیک ہے؟
جواب: اس سلسلے میں صحیح معاملہ یہ ہے کہ انسان کو اپنا بال کالے رنگ سے ڈائی نہیں کرنا چاہیے بلکہ کالا خضاب کے علاوہ کوئی دوسرا رنگ اختیار کر سکتے ہیں۔ بہر کیف! پہلے جو کچھ کر لیا گیا اس کا معاملہ نہیں ہے اور اس وقت جو کالا خضاب ہے اس کو مٹانے کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے البتہ آئند و دوباره بال کا لانہ کیا جائے بلکہ بالوں کو رنگنے کی ضرورت ہو تو کالے رنگ کے علاوہ دوسرے رنگ سے کلر کرے۔
سوال (8): باقی رہنے والی نیکیاں (571)
جمعہ کے دن جمعہ کی نماز کے بعد سنتوں اور نفلوں کے بعد سات مرتبه سوره اخلاص سات مرتبہ سورہ فلق اور سات مرتبہ سورہ ناس پڑھ لیجئے تو ان شاء اللہ آئندہ جمعہ تک ہر بری چیز سے ایکسیڈنٹ سے بری بیماری سے غلط خبر سے ہر برائی سے اللہ تعالی حفاظت کرے گا۔ یہ مضمون ابن السنی میں موجود ہے ) ہمارے ماحول میں چونکہ عورتیں مسجدوں میں نہیں آتیں گھر پر ظہر کی نماز پڑھتی ہیں تو کوئی بات نہیں جمعہ کے دن ظہر کی نماز کے بعد پڑھ لیجئے کوئی مسافر اس نے جمعہ کی نماز نہیں پڑھی تو ظہر کی نماز کے بعد پڑھ لے فورا نہیں پڑھ سکتے تو عصر تک یا جمعہ کے دن سورج غروب ہونے تک پڑھ لیجئے۔ جمعہ کے دن جمعہ کی نماز کے بعد سنتوں اور نفلوں کے بعد غروب آفتاب تک کوئی آدمی سو مرتبہ سبحان اللہ العظیم و بحمدہ پڑھے گا تو پڑھنے والے کے ایک لاکھ گناہ معاف ہوں گے اور اس کی ماں کے 12 ہزار گناہ معاف ہوں گے اور اس کے باپ کے 12 ہزار گناہ معاف ہوں گے۔ یہ مضمون بھی ابن سنی میں موجود ہے اللہ تعالی ہم سب سے راضی ہو جائے۔ آمین
کیا یہ صحیح ہے ،دلیل کے ساتھ واضح کریں؟
جواب : اس میں دو احادیث ابن السنی کے حوالہ سے مذکور ہیں اور یہ دونوں احادیث ضعیف ہیں۔
پہلی حدیث اس طرح ہے جسے شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے۔ من قر ا بعد صلاة الجمعة { قل هو الله أحد} و { قل أعوذ برب الفلق } و { قل أعوذ برب الناس } سبع مرات ؛ اجارہ اللہ بھا من السوء إلى الجمعة الأخرى (السلسلة الضعيفة: 1429)
شیخ البانی اس کو سلسلہ ضعیفہ میں درج کرتے ہیں اور ضعیف کہتے ہیں۔
اور دوسری حدیث اس طرح آتی ہے۔
من قال بعد ما يقضي الجمعة: سبحان الله العظيم وبحمده مئة مرة، غفر الله (مئة ألف ذنب، والوالديه أربعة وعشرين ألف ذنب. (
السلسلة الضعيفة: 6493)
ترجمہ : جس نے جمعہ کے بعد سو مرتبہ "سبحان اللہ العظیم و بحمدہ " کہا تو اس کے ایک لاکھ گناہ معاف کر دئے جاتے ہیں اور اس کے والدین کے چوبیس ہزار گناہ معاف کر دئے جاتے ہیں۔
اس حدیث کو شیخ البانی نے منکر کہا ہے اور منکر ضعیف حدیث ہوتی ہے۔
سوال(9): ایک بہن کا سوال ہے کہ اس کی ماہواری کی تاریخ پر ایک دن اور ایک رات کے لئے خون آیا پھر بند ہو گیا ہے۔ اب بالکل صاف ہے۔ کیا وہ غسل کر کے نماز پڑھ لے، اگر پھر سے خون جاری ہو جاتا ہے کچھ دنوں بعد تو اس کا کیا حکم ہے ؟
جواب : اس معاملہ میں ابھی غسل کر کے نماز ادا کی جائے گی پھر دوبارہ جب ماہواری آئے تو نماز سے رک جائیں گے اور جب پاکی حاصل ہو تو پھر غسل کر کے نماز ادا کی جائے گی۔
سوال(10): جیسا کہ یہ بتایا گیا ہے کہ نامحرم کے سامنے نماز نہیں ہوتی۔ اگر جوائنٹ فیملی سسٹم ہے اور گھر میں کسی کونے میں نماز ادا کر رہی ہوں، اسی دوران دیور وغیرہ وہاں آجائے تو کیا نماز توڑلیں اور بعد میں دوبارہ ان رکعات کو پڑھنا ہو گا یا نماز جاری رکھ کر مکمل کر لیں ؟ اور دیور کا بیٹا بارہ سال کا ہے جو ابھی بالغ نہیں ہوا ہے اس کا بھی یہی حکم ہے؟
جواب : یہ جو کہا جاتا ہے کہ نامحرم کے سامنے نماز نہیں ہوتی ہے یہ غلط بات ہے۔ نامحرم کے سامنے بھی نماز ہو جاتی ہے البتہ مکمل پردہ ہونا چاہیے۔ آپ نے دیکھا یا سنا ہو گا یا ٹی وی پر دیکھ بھی سکتے ہیں کہ مسجد نبوی میں اور مسجد حرام میں لاکھوں کی تعداد میں عور تیں مردوں کے سامنے نماز ادا کرتی ہیں جبکہ وہ سارے مرد اس عورت کے حق میں نا محرم ہوتے اس لیے نامحرم کے سامنے نماز ادا کرنے میں مسئلہ نہیں ہے آپ پر دے کے ساتھ نماز ادا کریں۔ مسجد نبوی میں رسول اللہ علیم اور صحابہ کے ساتھ کتنی ساری صحابیات نماز ادا کرتی تھیں اور آج بھی عورتیں مسجد میں مردوں کے ساتھ نماز ادا کر سکتی ہیں۔ اس لئے گھر میں نماز ادا کرتے وقت دیور یا اور کوئی مرد آ جائے خواہ بالغ ہو یا نا بالغ ہو اس کا کوئی مسئلہ نہیں ہے آپ اپنی نماز جاری رکھیں گے اور مکمل نماز ادا کریں گے، ساتھ ساتھ آپ نماز میں مکمل پردہ کرتے ہوئے نماز پڑھیں گے نیز گھر میں مناسب جگہ نمازادا کریں گے تاکہ سکون سے نماز پڑھ سکیں۔
سوال (11): میں مکمل حجاب کرتی ہوں اور میری بہنیں حجاب نہیں کرتیں، وہ میرے گھر آنے کی اجازت مانگتی ہیں، میں اجازت دیتی ہوں تو بے پر وہ آتی ہیں ان حالات میں جبکہ مجھے معلوم ہے کہ وہ بغیر حجاب کے گھر سے نکلیں گی اور بہت سے لوگ انہیں دیکھیں گے ، پھر وہ میرے گھر کی طرف آئیں گی، تو کیا میرا اجازت دینا گناہ ہو گا، اگر اجازت نہ دی تو یہ رشتہ داری ختم کرنے جیسا ہو گیا اور نصیحت کو بھی برا مانے گی ، یہ ہی بولے گی کہ تم ہماری فکر نہ کرو یا ہماری مرضی ہم حجاب کریں یا نہ کریں، یہ ہمارا پر سنل معاملہ ہے ،ایسی صورت میں مجھے صرف یہ پوچھنا ہے کہ کیا میرے اوپر گناہ ہو گا اگر میں ان کو اپنے گھر آنے کی اجازت دیتی ہوں اور وہ بے پردہ آتی ہیں ؟ ان حالات میں کیا کرنا چاہیے؟ اور کیا خونی رشتے داروں کے گھر جانا صحیح ہے جہاں پر بھا بھی بہنیں نامحرم کے سامنے آتی ہیں، اختلاط والا اجتماع ہوتا ہے جیسے دیور اور بہنوئی کے سامنے آنا، ساتھ کھانا پینا چاہے میں کمرے تک اپنے آپ کو محدود رکھوں ؟
جواب: آپ اپنے رشتہ دار کو اپنے گھر آنے دیں جہاں تک اس کے گناہ کا معاملہ ہے تو اس کا وبال اسی کے سر ہو گا آپ کے سر نہیں ہو گا البتہ آپ کا کام ہے کیا آپ اس گناہ کے کام پر اس کو خبر دار کریں کہ بے پردگی کا گناہ ہوتا ہے ، آپ مسلمان ہیں آپ پردہ کیا کریں۔اگر وہ آپ کی بات مان لے تو ٹھیک ہے اور نہ مانے تو آپ بری الذمہ ہیں۔ آپ کا کوئی مسئلہ نہیں ہے ، گناہ کا بال اس کے سر جائے گا جو گناہ کر رہا ہے تاہم دینی دعوت کا فرئضہ ہمیں انجام دینا چاہئے۔
سوال (12): ایک لڑکی کو طلاق ہونے کے بعد ایک حیض سے فارغ ہوئی تو دوسرا حیض ایک ہفتے کے بعد ہی آگیا جبکہ اس سے پہلےکبھی اس طرح نہیں ہوا تو سوال یہ ہے کہ یہ ایک ہفتے کہ بعد آنے والا حیض کیا عدت کا دوسرا حیض شمار ہو گا؟
جواب : ایک ماہ میں جو دو مرتبہ حیض کی شکل میں آیا ہے تو اس کو ایک ہی حیض شمار کیا جائے گا اور دوسرا حیض دوسرے ماہ میں شمار کیا جائے گا اور تیسر ا حیض تیسرے ماہ میں شمار کیا جائے گا۔
سوال(13): جب ایک انسان کی وفات ہو جاتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ اس کا جسم ویسے کا ویسے ہی رہتا ہے اور کئی ایسے جسم کئی سال بعد بھی قبر سے ویسے ہی نکلے ہیں لیکن اگر جسم مٹی میں مل جائے اور صرف ڈھانچہ بچ جائے تو کیا وہ گنہگار بندہ ہوتا ہے ؟
جواب : جس نے بھی ایسا کہا ہے اس نے غلط کہا ہے، کہیں پر بھی ایسا نہیں ہوتا ہے کہ میت کا جسم کئی سال بعد بھی صحیح سلامت دکھائی دیتا ہو ، میت کو جب زمین میں دفن کیا جاتا ہے تو اس کا جسم سرگل کر مٹی میں مل جاتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا ایک ہی قبرستان میں صدیوں سے لوگوں کو دفن کیا جاتا ہے ، ایک قبر میں دس دس ہیں ہیں بلکہ سیکڑوں مرتبہ مردے دفن کیے جاتے ہیں اور اس قبر میں کچھ بھی نہیں ہو تا سوائے سڑی گلی ہڈی کے اس لیے یہ کہنا کہ انسان کا جسم کتنے سالوں تک بھی صحیح سلامت رہتا ہے یہ غلط ہے، ایسا کچھ نہیں ہوتا ہے البتہ انبیاء کی یہ خصوصیت ہے کہ ان کے جسموں کو مٹی نہیں کھاتی لیکن عام آدمی کے بدن کو مٹی کھا جاتی ہے اور اس کے جسم کا کچھ بھی حصہ نہیں بچتا الا ماشاء اللہ ۔ اس لئے مٹی میں جسم کامل جانا گنہ گار ہونے کی علامت نہیں ہے، یہ تو حساب و کتاب کے بعد اعمال کا بدلہ ملنے پر آدمی کا اچھا یا برا ہو نا پتہ چلے گا۔
سوال (14): جس طرح والد کے ذمہ ہے کہ اولاد میں انصاف کرے اور سب کو ایک جیسا تحفہ دے تو کیا والدہ کے ذمہ بھی ایسی ہی بات ہے؟
جواب: ہاں والدہ کے لیے بھی اسی طرح کا معاملہ ہے جس طرح سے والد کا معاملہ ہے یعنی والدہ بھی اپنی اولاد کو کچھ دے تو تمام اولادکو برابر برابر دے۔
سوال (15): دانیال کا کیا معنی ہے؟
جواب : دانیال دو لفظوں سے بنا ہے، پہلا لفظ دان جس کا معنی قاضی کے ہوتا ہے اور دوسرا لفظ ایل اس کے معنی اللہ کے ہوتا ہے یعنی دانیال کا معنی اللہ قاضی ہے، اللہ فیصلہ کرنے والا ہے۔
سوال (16): ایک بہن کے پچھلے رمضان کے روزے باقی رہ گئے ہیں ، وہ مسلسل بیمار رہنے کی وجہ سے ابھی تک روزے رکھ نہیں پائی ہے، اور ابھی بھی سیم حالت ہے تو کیا وہ روزوں کا فدیہ دے سکتی ہے ؟
جواب: اگر بیماری کی وجہ سے پچھلے رمضان کے چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا نہیں کر سکی ہے تو رمضان کے بعد ہی سہی روزوں کی قضا کرے۔ ابھی تو رمضان بھی آنے والا ہے اس بہن کو رمضان کا روزہ بھی رکھنا ہے تو رمضان کا روزہ رکھ لے پھر رمضان کے بعد پچھلے روزوں کی قضا کرے۔ جو وقتی مریض ہوتا ہے وہ چھوٹے ہوئے روزوں کا فدیہ نہیں دے گا اور جو دائمی مریض ہے وہ چھوٹے ہوئے روزوں کا فدیہ دے گا۔
سوال(17): ایک ویڈیو میں نظر بد کا وظیفہ اس طرح بتایا گیا ہے کہ بال جھڑیں گے یا چہرے پر دانہ نکلیں گے ، جنات کی نظر لگتی ہے یا انسان کی، اس وقت عورت پردہ کرے، فلق و ناس پڑھے اور چہرے پر بھی ہاتھ پھیرے، پھر بھی نہیں ٹھیک ہوتا تو آئینہ کے سامنے بندہ کھڑا ہو جائے پھر وہ پہلے سورہ التین پڑھے اور لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم کی جس قدر چاہے تکرار کرلے، چاہے دس بار ہمیں بار تئیس بار کوئی تعداد متعین نہیں اور پوری سورت مکمل کر کے پھر فلق و ناس گیارہ گیارہ بار پڑھے پھر آئینہ کی طرف دیکھتے ہوئے تھو تھو کر کے پورے جسم اور سر پر ہاتھ مل لے، اس سے بالوں کی بیماری اور دانے سب ٹھیک ہو جائیں گے۔
کیا یہ سب باتیں درست ہیں اور اس پر عمل کیا جا سکتا ہے ؟
جواب : اس میں جو نظر بد کا وظیفہ بتایا گیا ہے وہ غلط ہے اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ نظر بد کا جو علاج ہے ایک علاج تو یہ ہے کہ جس کی نظر لگی ہو اس سے وضو کرایا جائے گا اور اس کی کمر کے نیچے کے حصے کو دھلا جائے گا اور اس کا پانی ایک برتن میں جمع کیا جائے گا اور اس پانی کو اس شخص پر سر کے پیچھے حصے سے انڈیل دیا جائے گا پورے بدن پر جس کو نظر لگی ہو اور دوسرا طریقہ شرعی دم ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں صحیح بخاری کی حدیث ہے کہ نظر بد میں مجھے حکم دیا گیا ہے کہ دم کیا جائے تو شرعی طور پر جیسے جادو میں دم کرتے ہیں اسی طریقہ سے نظر بد میں بھی دم کیا جائے گا۔
سوال (18): دوران خطبہ اگر کوئی مسجد میں داخل ہو اور اذان ہو رہی ہو تو کیا دورکعت تحیۃ المسجد ادا کریں کیونکہ اذان کا جواب دینا تو سنت ہے جبکہ جمعہ کا خطبہ سننا واجب ہے اور واجب پر سنت کو مقدم نہیں کیا جائے گا ؟
جواب: جب کوئی جمعہ کے دن مسجد میں آئے اور اذان ہو رہی ہو تو وہ انتظار کرلے اور اذان کا جواب دے پھر اس کے بعد ملکی دو تحیۃ المسجد ادا کرے اور اس کے بعد جو خطبہ میسر ہو وہ خطبہ سنے اس طرح سے اذان کا بھی ثواب مل جائے گا، تحیۃ المسجد بھی پڑھ لے گا اور خطبہ بھی سن لے گا اور اگر کوئی اذان کا جواب نہ دے اور وہ براہ راست تحیۃ المسجد پڑھنے لگے تو بھی کوئی حرج کی بات نہیں ہے لیکن افضل اور بہتر ہے کہ اذان کا جواب دے پھر تحیۃ المسجد پڑھے۔ نبی نے ایک شخص کو دوران خطبہ کھڑا کر کے تحیۃ المسجد پڑھنے کا حکم دیا.
سوال (19) : حمد اور شکر میں کیا فرق ہے اس کو واضح کریں؟
جواب: حمد اور شکر میں کیا فرق ہے اس تعلق سے علماء میں دو قسم کے نظریے پائے جاتے ہیں۔ ایک نظر یہ تو یہ ہے کہ حمد اور شکر میں کوئی فرق نہیں ہے یہ دونوں ہم معنی ہیں اور دوسرا موقف یہ ہے کہ حمد اور شکر میں فرق ہے اس کی تفصیل یہ ہے کہ حمد کا تعلق زبان سے ہے اور شکر کا تعلق زبان ، دل اور پورے جسم سے ہے اور اسی طرح سے حمد کبھی نعمت کے مقابلے میں ہوتی ہے تو کبھی بغیر نعمت کے بھی ہوتی ہے جبکہ شکر ہمیشہ نعمت کے مقابلے میں ادا کیا جاتا ہے۔
سوال (20): بغیر سحری کھائے روزہ رکھ سکتے ہیں ؟
جواب : بغیر سحری کھائے روزہ رکھ سکتے ہیں، روزہ رکھنے کے لئے سحری کھانا مسنون ہے ، واجب نہیں ہے۔ کبھی کوئی سحری نہ کھا سکے تو بغیر سحری کھائے بھی روزہ رکھ سکتا ہے تاہم سنت یہ ہے کہ سحری کھا کر روزہ رکھیں۔
سوال (21): ایک بہن کے والد کے پاس بہت پر اپرٹی ہے، ان کی وصیت ہے کہ مرنے کے بعد ایک مکان بیچ کر مسجد میں پیسہ لگایا جائے جبکہ اس بہن نے مشورہ دیا کہ آپ اپنی زندگی میں ہی ایسا کر لیں کیونکہ وفات کے بعد کیا بھروسہ کہ ساری اولا در اضی ہو یاراضی نہ ہو۔ اس پر والد کا کہنا ہے کہ مکان سے کرایہ آتا ہے جو زندگی میں کام آئے گا جبکہ اور بھی کرا یہ والا مکان ہے ، کیا بیٹی کی بات درست ہے؟
جواب : انسان اپنے مال میں سے زندگی میں بھی اللہ کے لئے وقف کر سکتا ہے اور چاہے تو وصیت کر دے کہ وفات کے بعد اس کا مال وقف کیا جائے، دونوں صورتیں جائز ہیں۔ بہر حال ! جس کا مکان ہے وہ اپنی صوابدید سے جب چاہے وقف کرے، اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے تاہم یہ ضرور خیال رہے کہ وصیت کرتے وقت ایک تہائی مال سے زیادہ وصیت نہیں کر سکتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگرکوئی جائز وصیت کر کے دنیا سے چلا جائے تو اس کی وصیت پر عمل کیا جائے گا، اگر اولاد باپ کی وصیت پر عمل نہیں کرتی ہے تو گنہگار ٹھہرے گی جبکہ وصیت کرنے والے کو نیت کے مطابق ثواب ملے گا۔
سوال(22): کیا عورتوں کے لئے نماز سے قبل اقامت کہنا فرض ہے یا واجب ، چاہے نماز انفرادی ہو یا باجماعت یعنی جس وقت عورت اکیلی نماز پڑھے یا عورتوں کی جماعت کرائے کیا اقامت مشروع ہے؟
جواب: عورت خواہ اکیلے نماز پڑھے یا عورتوں کی جماعت بنا کر نماز پڑھے اس کے لئے اقامت کہنا ثابت نہیں ہے اس لئے ایک عورت نماز پڑھتے وقت بغیر اقامت نماز پڑھے گی خواہ اکیلے نماز پڑھ رہی ہو یا جماعت کے ساتھ۔
 

مکمل تحریر >>

خواتین، صلوۃ التسبیح اور رمضان المبارک

 
خواتین، صلوۃ التسبیح اور رمضان المبارک
_____
✒️تحریر: مقبول احمد سلفی
 
یوں تو فرائض کے علاوہ نفل نماز کی بہت ساری اقسام ہیں جن کو تواتر کے ساتھ بہت کم مسلمان مرد اور مسلمان عورت ادا کرتے ہیں تاہم ان نفل نمازوں میں صلاۃ التسبیح ایک ایسی نماز ہے جس کے تئیں عورتوں کا رجحان مردوں کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے اور خاص طور پر دیوبندی حلقہ میں بطور خاص دیوبندی خواتین میں اس نماز کی اس قدر مقبولیت ہے کہ اتنی مقبولیت ان خواتین کی نظر میں نہ اشراق کی نماز ہے، نہ چاشت کی نماز ہے، نہ تہجد کی نماز ہے اور نہ ہی شاید شب قدر میں نوافل کی ادائیگی اتنی اہمیت کا حامل ہے۔
دیوبندی خواتین کا رجحان دیکھ کر بہت ساری اہل حدیث خواتین بھی اس نماز کا شوق زیادہ رکھتی ہیں بھلے وہ فرض میں کوتاہی کرتی ہوں یا سرے سے فرض نماز ہی نہیں ادا کرتی ہوں یا پھر سنن رواتب میں کوتاہی برتی ہوں یا دیگر نوافل کا اس قدر اہتمام نہ کرتی ہوں۔
جب رمضان کا مبارک مہینہ آتا ہے تو پھر صلوۃ التسبیح کے تعلق سے سوشل میڈیا پر پیغام در پیغام کا ایک طوفانی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور رمضان میں جب آخری عشرہ شروع ہوتا ہے تو طرح طرح سے صلاۃ التسبیح کو بیان کرکے اس نماز کو اخری عشرے میں اور خاص طور پر شب قدر میں انجام دینے کی بڑی شد و مد سے ترغیب دی جاتی ہے۔
مجھ سے جب جب کسی خاتون نے اس نماز کے تعلق سے سوال کیا تو میں نے انہیں یہی بتایا کہ آپ اس نماز کو نہ پڑھیں کیونکہ اس سلسلے میں جو بھی احادیث وارد ہیں وہ ضعیف ہیں اور خود اس نماز کی ادائیگی کا جو طریقہ ہے اور اس نماز میں جس قدر تعداد کے ساتھ تسبیح پڑھنے کا ذکر ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک نمازی کی توجہ نماز اور خشوع و خضوع سے ہٹ کر گنتی اور تعداد کی طرف لگ جاتی ہے۔
بہرکیف! بہت سے علماء نے اس نماز کو پڑھنا صحیح کہا ہے کیونکہ بہت سے علماء اس سے متعلق احادیث کو صحیح بھی قرار دیتے ہیں لیکن میری نظر میں حق اور صحیح بات یہ ہے کہ اس سلسلے میں وارد ساری احادیث ضعیف ہیں لہذا اس نماز کو نہ پڑھنا ہی اولی ہے۔
میں لوگوں کو بطور خاص خواتین کو ان نفل نمازوں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں جو صحیح احادیث سے ثابت ہیں اورجن کی ادائیگی میں کوئی شک نہیں ہے اور جس میں ڈھیر سارا اجروثواب ہے۔ سب سے پہلے تو اشراق کی نماز کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں جس کا ثواب حج و عمرہ کے برابر ہے۔ اگر اشراق کی ادائیگی مشکل ہے تو ظہر سے پہلے کسی وقت چاشت و اوابین کی دو رکعت نماز پابندی سے ادا کریں، اس سے جسم کے ہر جوڑ کا صدقہ ادا ہوجاتا ہے۔ یہ وہی نماز ہے جس کی فضیلت کی وجہ سے ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مرتے دم تک ادا کرنے کی وصیت کی اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اس نماز کو مرتے دم تک ادا کیا۔
اشراق اور چاشت میں معمولی فرق ہے ۔ اشراق کی نماز پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ فجر کی نماز جماعت سے پڑھیں اور اسی جگہ بیٹھے ذکر و اذکار میں مشغول رہیں یہاں تک کہ سورج طلوع ہوکر کچھ بلند ہو جائے تو دو رکعت ادا کریں اور چاشت کی نماز یہ ہے کہ آپ ظہر کی نماز سے پہلے اور سورج نکلنے کے بعد کسی وقت چاشت کی نیت سے دو رکعت نماز ادا کر لیں ، اس نماز کو اوابین بھی کہتے ہیں۔
اشراق اور چاشت کو عموماً ایک جیسی نماز کہا جاتا ہے تاہم یہ معمولی فرق ذہن میں رکھیں۔
اسی طرح نوافل میں وضو کی سنت ، تحیۃ المسجد اور رات کا قیام ہے بلکہ خصوصیت کے ساتھ میں ذکر کروں گا کہ اگر آپ کو اللہ رب العالمین نے شوق عبادت دیا ہے تو رات میں اٹھ کر جس قدر ہو سکے دو دو رکعت کرکے قیام اللیل کریں خواہ رمضان کا مہینہ ہو یا غیر رمضان کا مہینہ ہو۔ کم از کم گیارہ رکعت جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول رہا ہے اس پر عمل کرنے کا آپ بھی معمول بنالیں۔ یہی ایک نماز آپ کو اپنے رب سے ملادے گی، ہر قسم کی بھلائی عطا کرے گی، آپ کی ہر ضرورت پورا کرے گی، آپ کی ہر دعا عند اللہ مقبول ہوگی اور آپ کی ہر مشکل اس سے آسان ہوگی بشرطیکہ آپ پنج وقتہ نمازیں بھی ادا کرتے ہوں اور دیگر فرائض و واجبات کا بھی اہتمام کرتے ہوں اور فواحش و منکرات کے ساتھ کبیرہ گناہوں سے یکسر بچتے ہوں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہمارے لئے اسوہ ہے، آپ ذرا اندازہ لگائیں کہ فرائض کے بعد آپ کون سی عبادت پر زیادہ توجہ دیتے اور شوق و انہماک سے اسے انجام دیتے حتی کہ آپ کے قدموں میں ورم آجاتا ۔۔ وہ یہی قیام اللیل ہے۔
عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کی نماز میں اتنا طویل قیام کرتے کہ آپ کے قدم پھٹ جاتے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک مرتبہ عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ اتنی زیادہ مشقت کیوں اٹھاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تو آپ کی اگلی پچھلی خطائیں معاف کر دی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا پھر میں شکر گزار بندہ بننا پسند نہ کروں۔(صحیح بخاری: 4837)
(امام بخاری نے اس حدیث کو کتاب التہجد کے تحت بیان کیا ہے)
 

مکمل تحریر >>

عید ملن کی تقریب اور کیک کا فسانہ

 
عید ملن کی تقریب اور کیک کا فسانہ
تحریر: مقبول احمد سلفی
جدہ دعوہ سنٹر ،السلامہ ، سعودی

سعودی عرب میں عام طور سے کمپنیوں اور اداروں میں عام رواج ہے کہ عید کے بعد جب سب لوگ اپنے اپنے کام پر لوٹ جاتے ہیں تو کمپنی یا ادارہ کی طرف سے مؤظفوں کے لئے عید ملن کی تقریب کا اہتمام کیا جاتا ہے اور اس تقریب میں ایک دوسرے سے علیک سلیک کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو دعاؤں سے نوازتے ہیں۔
ماشاءاللہ عربوں کو اللہ تعالی نے بے پناہ خوبیوں سے نوازا ہے، ان میں سے ایک خوبی یہ ہے کہ ایک دوسرے سے ملتے جلتے وقت بے پناہ دعائیں دیتے ہیں ، رمضان کے موقع پر ایک دوسرے کے لئے دعاؤں کی کثرت ہوجاتی ہے اور عید کے موقع پر مبارکبادی کے معاملہ میں تو صحابہ کرام جیسا اسوہ دیکھنے کو ملتا ہے۔
یہ تو ملنے جلنے والوں کے ساتھ کا معاملہ ہے اور جو لوگ ایک جگہ کام کرتے ہیں ، جب وہ عید کی چھٹی پر ایک دوسرے سے جدا ہو جاتے ہیں تو ان کو اس وقت مبارکبادی اور رمضان میں کئے گئے اعمال صالحہ کی قبولیت کی دعائیں دیتے ہیں جب سب اپنے کام پر لوٹتے اور ایک جگہ جمع ہوتے ہیں ۔
دوسری طرف بر صغیر ہند و پاک کے مسلمان ہیں جو نہ رمضان میں رمضان کی عبادتوں کی قبولیت کے لیے لوگوں کو دعائیں دیتے ہیں، نہ صاف دل سے عید پر ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور نہ ہی عید کے بعد اعمال کی قبولیت کے لیے ایک دوسرے کو دعائیں دیتے ہیں بلکہ ہماری زبانیں ایک دوسرے کو برا کہنے ، گالی دینے اور تکلیف دینے میں زیادہ تیز چلتی ہیں ۔
یاد کیجئے جب اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام کو خانہ کعبہ کی تعمیر کا حکم دیا تھا تو آپ نے الہی حکم کی تعمیل کرتے ہوئے قبولیت عمل کے واسطے سے اللہ سے کون سی دعا کی تھی۔
(رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ)(سورة البقرة:127)
ترجمہ: اے ہمارے رب! تو ہم سے قبول فرما، بے شک تو سننے والا اور جاننے والا ہے۔
اس آیت کی شرح پڑھیں گے تو معلوم ہوگا کہ ہمارے اسلاف عمل کرنے کے بعد اس کی قبولیت کے لیے اللہ تعالی سے خوب خوب دعائیں کرتے تھے جیساکہ ابراہیم علیہ السلام نے اللہ سے دعا کی لیکن آج ہم نے اس عمل کو بھلا دیا اور جن کے یہاں یہ عمل پایا جاتا ہے ان پر اعتراض کرنے کے بہانے ڈھونڈتے ہیں۔
عید ملن کی تقریب عرب قوم میں کمپنیوں اور اداروں کے مؤظفوں کے لئے مبارکبادی اور دعا کے ساتھ ایک طرح کی دعوت بھی ہوتی ہے اور اس دعوت میں کمپنی کی طرف سے تمام مؤظفوں کے لئے کھانے کا اہتمام ہوتا ہے۔کہیں کہیں کھانے کے ساتھ کیک بھی کاٹا جاتا ہے جیساکہ ہم نے حرمین شریفین کی ریاست کی جانب سے منعقد تقریب عید ملن میں شیخ سدیس حفظہ اللہ کو ایک ویڈیو میں کیک کاٹتے ہوئے دیکھا ہے۔
اس کیک میں سب سے اوپر ریاست حرمین شریفین کا لوگو ہے جس لوگو میں خانہ کعبہ کی بھی تصویر ہے، اس لوگو کے نیچے عید مبارک لکھا ہوا ہے اور اس کے نیچے 1445 لکھا ہوا ہے۔ شیخ سدیس نے جہاں پر چاقو چلایا ہے، وہاں پر 1445 لکھا ہوا ہے۔ اور ظاہر سی بات ہے کہ جب کیک بڑے سائز کا ہو تو اس کو چاقو سے کاٹ کر ہی ایک دوسرے کو تقسیم کیا جائے گا اور شرف کے لیے کسی بڑے کو کیک کاٹنے کے لیے کہہ دیا جاتا ہے۔ گویاحقیقت میں ریاست حرمین شریفین کی اس تقریب میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جس پر اعتراض کیا جائے لیکن بدعتی اس تاک میں لگے رہتے ہیں کہ کہیں کوئی موقع ہاتھ لگے اور قران و حدیث کے نام لیواؤں کو بدنام کریں۔ شیخ سدیس کے اس عمل پر بھی بدعتیوں نے اعتراض کیا اور لوگوں میں یہ پرچار کیا کہ شیخ سدیس کیک کے ساتھ خانہ کعبہ کو بھی کاٹ رہے ہیں جبکہ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ 1442 کی بھی ایک ویڈیو پائی جاتی ہے جس میں شیخ سدیس کیک کاٹ رہے ہیں اور اتفاق سے اوپر سے یعنی لوگو کے پاس کیک کاٹ رہے ہیں مگر ان کا چاقو کعبہ پر نہیں چلا ہے۔ یقین نہ آئے تو ذرا غور سے ویڈیو دیکھیں ۔
ایسی صورت میں کیک کاٹنے کو خانہ کعبہ کو کاٹنا نہیں کہا جائے گا اور میں اس عمل کی وکالت بھی نہیں کر رہا ہوں بلکہ میں خود بھی یہ چاہتا ہوں کہ ایسے اعمال سے پرہیز کرنا ہی بہتر ہے پھر بھی یہ کہنے میں مجھے کوئی تردد نہیں ہے کہ اس مقام پر بدعتیوں کا اعتراض کرنا بالکل بیجا ہے۔
اس جگہ بدعتیوں سے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ محض کیک کاٹنا غلط ہے یا کیک پر خانہ کعبہ بنا تھا اس لئے کاٹنا غلط ہے تو پھر تمہاری غیرت اس وقت کہاں چلی جاتی ہے جب تم عید میلاد النبی کے نام پر ، کیک پر محمد لکھتے ہو اور اسے چاقو سے کاٹتے ہو اور اس وقت تمہاری غیرت کہاں چلی جاتی ہے جب تم نبی کے نام پر محفل میلاد سجاتے ہو اور اس میں نہ صرف ڈھول تاشے بجاتے ہو بلکہ مجرا کرنے والی فاحشہ عورت تک کو نچواتے ہو۔ اگر تم واقعی اصلاح چاہتے ہو تو تم اپنے ان اعمال کی اصلاح کر لو۔
 
مکمل تحریر >>